گھریلو تشدد کے بڑھتے واقعات

0
11

تحریر: ملک عبدالعزیز

گزشتہ روز ٹی ایچ کیو ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا، وہاں پر ایک فیملی جو کاہنہ لاہور کی رہائشی تھی، اپنی دو بچیوں کے ساتھ آئی جن ہر تشدد کیا گیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ فیملی والوں پر بھی تشدد ہوا تھا، تکلیف سے خواتین چلا رہیں تھیں۔ تجس پیدا ہوا معلوم کیا تو پتہ چلا دونوں بچیاں جن کے نام( الف) اور (س) ہیں سگی بہنیں ہیں اور ان کی شادی ان کے پھوپھی زادوں کے ساتھ تقریبا 7 برس قبل ہوئی، جن کے بچے بھی تھے۔ شروع دن سے ان پر شوہروں کے تشدد کے ساتھ سسرالیوں کا ستم جاری رہا، گزشتہ روز بھی شوہروں نے اپنے سسرال سے ناجائز ڈیمنڈ کے پورا نا ہونے پر تشدد کی انتہا کر دی، جس سے (الف) کی انگلیاں ٹوٹ گیں جبکہ (س) بھی شدید زخمی ہوئی، جس کی اطلاع بچیوں کے والدین کو ہوئی اور وہ پوچھنے کے لیے ان کے سسرال پہنچے تو ظلم دیکھ کر اپنی بچیوں کو ساتھ لے کر جانے کا فیصلہ کیا، جب گاڑی میں سوار ہوئے تو بچیوں کے سسرال والوں نے گاڑی پر اور اس میں سوار افراد پر حملہ کرکے تشدد کرنے کے ساتھ گاڑی توڑ ڈالی، جس کے حوالے سے پولیس کو اطلاع ہوئی۔ بچیوں کا میڈیکل ہوا تو بات پھر اس نہج پر چلی گی کہ بچیوں گھر بسانا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ جو کربناک تھا کہ بچیوں کے شوہروں و سسرالیوں کو اپنے اس فعل پر زرا بھی شرمندگی محسوس نا ہوئی، تاہم معاملات پولیس میں چلے گئے، اسی دوران ایک اور معاملہ بھمبہ کا آگیا جس میں دیور نے بھابی پر تشدد کیا، میں حیران تھا کہ چند گھنٹوں میں ہی گھریلو تشدد کے دو واقعات میرے سامنے آ گئے ہیں، تو اس طرح کے کتنے کیسسز رونما ہوتے ہوں گے۔

اپنی صحافی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ڈیوٹی پر موجود لیڈی ڈاکٹر مہ رخ سے ملا اور اپنا تعارف کروانے کے بعد اس حوالے سے گفتگو کی جنہوں نے بتلایا کہ ہفتہ بھر اگر دس سے بارہ میڈیکل آتے ہیں، تو ان میں سے 6 سے سات گھریلو تشدد کے ہوتے ہیں، یہ شرح بہت زیادہ تھی، اسی حوالے سے خدمت سینٹر پر موجود آفیسر سے بات ہوئی تو ان کا بھی یہی کہنا کہ گھریلوں تشدد کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور لوگ اپنی بچیوں کے گھر برباد نا ہوں، اس وجہ سے ایسے معاملات میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور معاملات باہر نہیں نکل پاتے جن کی شرح درج ہونے والے معاملات سے دوگنی ہوتی ہے۔ کیونکہ ایسے معاملات میں معاشرتی دباو کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کا بھی خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گھریلو تشدد میں آخرکار اضافہ کی کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے سوسائٹی میں انتشار پیدا ہو رہا ہے اس سارے عمل کا تجزیاتی مشاہدہ کیا جائے، اسی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے کاغذ قلم ہاتھ میں لیا۔

اگر ہم مذہبی لحاظ سے دیکھیں تو بات واضع ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس میں نسل انسانی کو بڑھانے کے لیے نکاح رکھا گیا ہے تاکہ معاشرے کو بےراہ روی سے بچایا جا سکے، اسے لیے حکم ہے کہ جب تمارے بچے بڑے ہوجائیں تو ان کا نکاح کر دو صرف یہی نہیں بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ تم اپنے غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح بھی کر دو، جن میں یہ صلاحیت ہے ایک اور جگہ فرمایا گیا کہ جس وقت نکاح ہوتا ہے تو شیطان اپنے سر میں خاک ڈال کر روتا ہے کہ اس نے اپنا آدھا ایمان بچا لیا، نکاح کے عائلی زندگی کے حوالے سے میں بیوی کے حقوق و فراٙئض مقرر کر دیئے گے، میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا، بیوی کو مرد کی اطاعت کا حکم دیا گیا، رسول اللہ( ص) کے پاس ایک صحابی آئے اور پوچھا کہ خاوند کے حقوق کیا ہیں فرمایا کہ اگر خاوند کے جسم پر زخم آ جائے اور اس میں پیپ پڑ جائے تو اگر بیوی کو چاٹنا بھی پڑے تو چاٹے، اسی طرح اس کی جسمانی ضروریات کا بغیر شرعی عذر خیال رکھنا، اس کے پیچھے اس کے مال عزت کا خیال رکھنا، اس کی احازت کے بغیر گھر سے باہر نا نکلنا، اس کے لیے سجنا سنورنا وغیرہ، اسی طرح خاوند پر بھی لازم قرار دیا کہ بیوی کا نان نفقہ کا خیال کرنا، اس سے محبت سے پیش آنا، طعنہ زنی نا کرنا، دونوں کا غیبت نا کرنا، عیب جوئی نا کرنا وغیرہ شامل ہے۔ تو پھر ایسے کون سے حالات پیدا ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بات اس حد تک بڑھ جاتی ہے جو گھریلو تشدد سے بھی بڑھ جاتی ہے۔

اسلام نے شوہر کو باہر کے کاموں کا ذمہ دار بنایا جبکہ بیوی کو گھر کے اندرونی معاملات کا موجودہ دور میں جو ہرفتن دور ہے، ماہرین نفسیات کے مطابق معاش کا مسئلہ روز با روز گھمگیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے، جس کی وجہ حصول رزق حلال کے لیے شوہر کو جو جتن کرنے پڑتے ہیں، اس کے حوالے سے وہی جانتا ہے یا اس کا رب، اب یہ تھکا ہارا شوہر جب گھر جاتا ہے تو سکون کی اسے تلاش ہوتی ہے اور جب گھر میں آئے روز ساس نند و دیگر معاملات کے جھگڑے اسے پیش آتے ہیں تو یہ شوہر آگ بگولہ ہو کر اپنی بیوی پر برس پڑتا ہے۔

دوسری طرف بیوی جو سارا دن گھریلو امور کو سر انجام دینے کے بعد تھکاوٹ کا شکار ہوتی ہے اسے اپنے خاوند سے پیار محبت کے اظہار کی توقع ہوتی ہے، جس کی خواہش ہوتی خاوند اس سے محبت خلوص پیار کس اظہار کرنے کے ساتھ اس کی خدمات کا اعتراف بھی کرے لیکن یہ خاوند اس سے محبت کے دو بول بولنے کی بجائے کرخت لہجہ اختیار کرتا ہے تو بات بگڑتی ہے اور اس کے بگاڑ میں زبان درازی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ اگر ہم موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی یلغار کا تذکرہ نا کریں تو زیادتی ہو گی۔ آج کے اس دور میں سوشل میڈیا فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک وغیرہ نے خواتین و مردوں کے ذہنوں میں سہنری سپنے سجا دیئے ہیں۔ جب یہ سپنے ان کے پاٹنر سے جن کی امیدیں ایک دوسرے کے ساتھ وابسطہ ہوتیں ہیں، پوری نا ہوں تو انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح حقوق نسواں کا پرچار جس میں عورت اور مرد برابر اور عورت مرد کی غلام نہیں جیسا سلوگن پرموٹ ہونا بھی اس انتشار کا باعث ہے لیکن میں یہ نہیں کہوں گا کہ خواتین ہی ذمہ دار ہیں بلکہ مرد اس کو بڑھانے میں زیادہ زمہ دار ہیں۔ اگر وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں پہلو تہی نا کریں تو ایسے معاملات ہرموٹ نا ہوں یہاں پر ایک بات کا تذکرہ کرنا تو بھول ہی گیا جو کہ مشترکہ خاندانی نظام ہے جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہے جس کے ثمرات تو بہت زیادہ ہیں لیکن میاں بیوی کے معاملات میں بعض اوقات دارڑ کا سبب بھی ہیں۔

بہرکیف خواتین پر گھریلو تشدد ایک قبیح عمل ہے جس کی مذہب اسلام بھی اجازت نہیں دیتا (خاص معاملات کے علاوہ) اور نا ہی سوسائٹی جیسا کے پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے کہ دو تہائی ایسے معاملات انتظامیہ کی نظر میں نہیں آتے ایک تہائی اگر نظر آ جائیں تو ان میں ایسے مردوں کو قرار واقع سزا نہیں ہوتی۔ جس کی بنیادی وجہ مردوں کا معاشرہ ہونا ہے اگرچہ موجودہ حکومت جس میں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف جو خود بھی عورت ہیں، خواتین کے حوالے سے بہت زیادہ قانون سازی ہو رہی ہے، ان کی حراسمنٹ سے لے کر شخصی آزادی تک ان کے لیے علیحدہ تھانوں کا قیام معاشی اداروں کا قیام شخصی آزادی جیسے معاملات لیکن ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں